کیا او آئی سی کو نئی قیادت کی ضرورت ہے
ایک بحران سے دوسرے بحران تک اور ایک سے بڑھ کر ایک چیلنج کے ساتھ، اسلامی تعاون کی تنظیم اس تخیل کا عکس ہے جو 70 کی دہائی میں اس کی بنیاد کے وقت سوچا گیا تھا۔ گئے دنوں کی بات ہے جب مرحوم شاہ فیصل اورذوالفقار علی بھٹو بولنے کی جرات رکھتے تھے، تیل پر پابندیاں لگانے کا حوصلہ رکھتے تھے اور دق قطبی دنیا کے طاقتور ممالک روس اور امریکہ کو چیلنج کرنے کی ہمت رکھتے تھے نہ صرف یہ بلکہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبران کی کریڈیبیلٹی پر سوال اٹھانے کا یارا رکھتے تھے۔
اس وقت سے اب تک پچاس سال ہو گئے ہیں۔ اب تو ہر شخص جدہ میں اسلامی تعاون کی تنظیم کے سیکریٹیریٹ سے جاری ہونے والے ملتے جلتے بیانات ، اس کے خالی دعووں اور کانٹ چھانٹ شدہ بیانات سے بخوبی آگاہ ہے۔ بلکہ اب تو تنظیم کے اجلاس سے قبل ہی دنیا کو پتا ہوتا ہے کہ کونسا بیان جاری ہو گا۔ اس تنظیم کی سب سے شرمناک ناکامی عزت اور وقار کے عکس کی کمی تھی جب اس تنظیم کے اراکین نے خود ہی یمن میں انسانی المیے کو جنم دیا جو گزشتہ پانچ سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اور اس کا مقصد صرف یمن میں اپنی من پسند حکومت کو اقتدار دینا ہے۔ یمن جنگ نے اس تنظیم کے اتحاد کے نعرے کی قلعی کو مکمل طور پر کھول دیا۔
اس کے بعد بھارت کا مقبوضہ جموں و کشمیر کی رہاستی حیثیٹ تبدیل کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کی خلاف ورزی اور وادی کا زبردستی الحاق جبکہ ایک سال سے زائد کے طویل عرصے پر وادی کا محاصرہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس سے نمٹنے میں اسلامی تعاون کی تنظیم مکمل طور پر بے بس نظر آئی۔ بلکہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس مسئلے میں بھی کئی عرب ممالک بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بچانے کی کوشش میں تھے اور بھارتی مقبوضہ کشمیر پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے میں مکمل ناکام دکھائی دیئے۔
اور اب مسئلہ فلسطین سامنے کھڑا ہے۔ اسرائیل نہ صرف غزا بلکہ مغربی کنارے کو بھی اپنی وحشیانہ بمباری تلے کچل رہا ہے بلکہ پوری مشرقی یروشلم بشمول مسجد الاقصی کےالحاق کے لیے بھی تیار بیٹھا ہے جبکہ اس سخت تشویش ناک صورتحال پر بھی اسلامی تعاون کی تنظیم اس دہشت گردی اور نسل کشی پر حسب روایت انہی فرسودہ بیانات سے مسئلےکو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ درحقیقت جس طرح او آئی سی نے مسئلہ فلسطین کو ایک بیان سے ٹرخانے کی کوشش کی ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز اور اس تنظیم کو نام نہاد ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔.
پاکستان، ملائشیا، ترکی اور ایران کا بلاک جو کم از کم آزادانہ فیصلے کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا اس کو جڑ سے ہی اکھاڑ کر پھینک دیا گیا اور اس کے لیے ہمیں اپنے مشرق وسطائی مہربانوں کی خیرات کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے ان دوستوں کو فراہم کی جانے والی سیکورٹی کو کبھی کسی معنوں میں تسلیم ہی نہیں کیا گیا ۔دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے پئش نظر او آئی سی کو اپنا رویہ محض او۔۔ آئی سی سےبدل کر ٹھوس اقدامات کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم لیڈرشپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصلاحات لے کر آئیں۔ اگر ہم اب بھی پرانے فارمولوں پر چلتے رہےتو یہ مناسب نہ ہوگا ۔ بہتر تو یہ ہے کہ تنظیم کے سیکرٹریٹ کو فی الفور اسلام آباد یا استنبول منتقل کر دیا جائے۔ آپ اس حوالے سے یورپین یونین کی مثال لے لیں جو بریکسٹ کے باوجود نہیں ٹوٹی کیونکہ اس کی قیادت گردش میں رہتی ہے۔ او آئی سی میں اصلاحات نہ لانے کی خواہش کی کمی کے باوجود پاک ترکی اور سوڈان کا بلاک فلسطین کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ پس او آئی سی کی نئی قیادت کے سامنے آنے کا وقت آ چکا ہے اور اس خوابیدہ تنظیم کی از سر نو تعمیر کا لمحہ آن پہنچا ہے۔
Comments
Post a Comment